Sunday, December 28, 2014

فاتح سندھ محمد بن قاسم کے قابلِ فخر کارنامے





محمد بن قاسم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں-کون کہہ سکتا تھا کہ 17 سال کا یہ نوجوان وہ کر جائے گا جو بڑے بڑے حکمران نہ کر سکے اور اس کا دور برصغیر کا ایک روشن باب بن جائے گا-محمد بن قاسم ایک عظیم عمیاد جنرل تھا جس نے صرف 17 سال کی عمر میں سندھ اور پنجاب کے وہ علاقے فتح کیے جو دریائے سندھ کے کنارے واقع تھے اور اب سرزمینِ پاکستان کا حصہ ہیں- سندھ اور پنجاب کی فتح سے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی حکومت کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا اور آج صوبہ سندھ بابِ اسلام کے نام سے پہچانا جاتا ہے-

محمد بن قاسم عرب کے شہر طائف میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے- طائف قبیلے کے Thaqafi قبیلے سے تعلق رکھنے والے قاسم بن یوسف٬ محمد بن قاسم کے والد تھے اور ان کا انتقال محمد بن قاسم کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا- ان کے بعد محمد بن قاسم کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ پر آن پڑی- عمیاد کے گورنر الحجاج ابن یوسف محمد بن قاسم کے چچا تھے- انہوں نے محمد بن قاسم کی جنگ اور نظامِ حکومت کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی- حجاج بن یوسف کی سرپرستی میں محمد بن قاسم کو فارس کا گورنر بنایا گیا اور وہ ایک بغاوت کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے



فاتحِ سندھ
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مسلمان تاجروں کا Ceylon میں انتقال ہوگیا تھا اور Ceylon کے حکمران نے ان کی بیوہ عورتوں اور یتیموں کو سمندر کے راستے بغداد بھیج دیا تھا- Ceylon کے بادشاہ نے حجاج بن یوسف کے لیے بیش قیمت تحائف بھی بھجوائے- دیبل کی بندرگاہ پر ہندوں قزاقوں نے سمندری قافلے کو لوٹ لیا اور عورتوں کو بچوں سمیت قیدی بنا لیا- جب اس واقعے کی خبر حجاج بن یوسف کو ہوئی تو اس نے راجہ داہر سے مسلمان قیدیوں کو رہائی٬ لوٹے ہوئے مال کی واپسی اور مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا- راجہ داہر نے جواب دیا کہ بحری قزاقوں پر اس کا حکم نہیں چلتا- اس جواب کے حجاج نے سندھ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا- حجاج بن یوسف کے پہلے دو بھیجے جانے والے لشکروں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا- اس کے بعد حجاج بن یوسف نے فیصلہ کیا کہ راجہ داہر جو قزاقوں کی سرپرستی کر رہا تھا٬ پر جارحانہ حملہ کرے گا- اس حملے کی اصل وجہ راجہ داہر کی غیر منصفانہ پالیسیاں تھیں-

جب محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کیا تو اس وقت راجہ داہر سندھ کے دارالحکومت الور (نواب شاہ) سے میں تھا جو کہ دیبل سے 500 کلومیٹر کی دوری پر تھا- دیبل اس وقت گورنر کی زیرِ سرپرستی تھا اور وہاں چار سے چھ ہزار راجپوت اور چند ہزار برہمن سپاہیوں کی ایک فوج موجود تھی- اور اسی وجہ سے راجہ داہر نے دفاع کے لیے اس جانب فوراً کوچ نہ کیا- ایک نوجوان حملہ آور اس وقت حجاج بن یوسف سے قریبی تعلق رکھے ہوئے تھا اور ہر چھوٹی بڑی بات میں مشورہ لیتا تھا-اس وقت رابطے کا انتہائی مؤثر طریقہ تھا کہ ہر تین دن میں خط لکھے جاتے تھے اور ہر سات دن میں ان کا جواب بھی موصول ہوجاتا تھا- لہٰذا حجاج بن یوسف اس معاملے کی بذاتِ خود نگرانی کر رہا تھا- دیبل کا محاصرہ کچھ دن تو جاری رہا لیکن پھر ایک جاسوس کی جانب سے محمد بن قاسم کو مندر پر قبضہ کرنے کا راستہ فراہم کیا گیا- عرب فوج نے سیڑھیاں لگا کر مندر میں داخل ہوگئی- اسلامی قوانین کے مطابق وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی گئی- اور اس کے بعد مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔

محمد بن قاسم نے مسلمانوں کی رہائش کے لیے شہر میں 4 ہزار کوارٹر تعمیر کیے- محمد بن قاسم کی یہ تاریخی فتح مسلمانوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے- مقبوضہ قلعہ اور شہر کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی گئی- ارور کے مقام پر محمد بن قاسم کے لشکر کا سامنا راجہ داہر کی فوج اور جٹوں سے ہوگیا- اس جنگ میں راجہ داہر مارا گیا اور اس کی فوج کو شکست ہوئی اور محمد بن قاسم نے سندھ باگ ڈور سنبھال لی۔

محمد بن قاسم کی طلسماتی شخصیت
محمد بن قاسم کی فوج اور انتظامی کامیابی پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے- محمد بن قاسم خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ایک قابل لیڈر تھا- ایک شیر٬ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ایک سیاستدان اور ایک قابل منتظم تھا- اس کی کم عمری٬ متاثر کن شخصیت٬ اس کی جرات مندی اور بہادری جس کے بل بوتے پر کئی فتوحات حاصل کیں- دشمنوں کے لیے فولاد اور دوستوں کے لیے نرم دل انسان تھا۔

ایک قابل جنرل
راجہ داہر کی فوج تکنیکی اور قائدانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے کمزور تھی- محمد بن قاسم 17 سال کا ایک بہادر اور قابل جنرل تھا- سندھ کی سرزمین پر عربوں کی فتح کا سہرا اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے سر تھا- وہ ایک عظیم جنگجو اور ایک اچھا منتظم تھا- اس جنگ کے دوران جو مندر توڑے گئے وہ مذہبی جنونیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس لیے کیونکہ ہندوستان کا بیش قیمت مال و دولت وہاں ذخیرہ تھا۔

محمد بن قاسم نے سندھ کے باشندوں کے لیے مفاہمتی پالیسی اپنائی- برہمنوں کو اپنی مذہبی رسومات پوری کرنے کی آزادی تھی- سندھ کی عوام کو جان و مال کی حفاظت حاصل تھی بشرط کہ وہ اس کے بدلے ٹیکس ادا کریں گے

دور اندیش حکمران
محمد بن قاسم ایک دور اندیش حکمران اور سیاستدان تھا- اس نے فتح کے بعد سندھ کے موجودہ نظام کو خراب نہیں کیا- اس نے اندرونی معاملات کا نظام وہاں کے باشندوں پر چھوڑ دیا- داہر کے زمانے میں جن لوگوں نے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا وہ اس بات کی امید کر رہے تھے کہ اس زمین کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جاسکیں- محمد بن قاسم نے ان لوگوں پر مکمل اعتماد کیا اور انہیں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز کیا۔

المناک موت
محمد بن قاسم کی زندگی کا دردناک اختتام 715 میں ہوا- خلیفہ سلیمان اور حجاج بن یوسف کے درمیان دشمنی تھی- محمد بن قاسم اس دشمنی کا شکار ہوگیا- حجاج کا داماد ہونے کے ناطے اس کو سنگین نتائج بھگتنے پڑے- محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے میسوپوٹامیا میں قید کردیا گیا تھا جہاں اس پر کیے جانے والا تشدد اس کی موت کا باعث بن گیا-بالآخر مسلمانوں کی تاریخ کا یہ عظیم ہیرو دنیا سے رخصت ہوگیا۔-

0 Comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Ads

Google Translator

Blogger Tips And Tricks|Latest Tips For BloggersFree BacklinksBlogger Tips And Tricks
English French German Spain Italian Dutch Russian Portuguese Japanese Korean Arabic Chinese Simplified
Powered By google

BidVertiser