Friday, March 27, 2015

بجلی کا بحران


ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا،،شاٹ فال پانچ ہزار میگا واٹ سے بھی تجاوز کرنے سے لوڈ شیڈنگ کے دورانیےمیں اضافہ ہوگیا۔
.
.

این ٹی ڈی سی ذرائع کے مطابق ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور شاٹ فال پانچ ہزار میگا واٹ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں بجلی کی بندش کا دورانیہ دس گھنٹے جبکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں چودہ سے سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے،، لیسکو زرائع کے مطابق لیسکو کی طلب پینتیس سو میگا واٹ جبکہ رسد پندرہ سو میگا واٹ ہےجس سے شاٹ فال دوہزار میگا واٹ کی سطح پر پہنچ گیا،،،ادھر لال پیر ، اور پاک جین پاور پلانٹس بند ہونے کے باعث ایک ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی نظام سے نکل گئی ہے جس کے بعد شاٹ فال میں اضافہ ہوا ہے،دوسری جانب غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے بھی شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔
مکمل تحریر >>

سعودی سالمیت کو خطرے پر بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ

حکومتِ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے لاحق ہونے کی صورت میں اس کا بھرپور ساتھ دے گا۔
یاد رہے کہ جمعرات کو سعودی فوج نے یمن میں صدر ہادی کی درخواست پر شیعہ حوثی قبائلیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا۔ اور اس کا دعویٰ ہے کہ اسے پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ اس جنگ میں حصہ لینے کو بھی تیار ہے۔
پاکستان میں وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کی سربراہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں آرمی چیف، فضائیہ کے سربراہ اور وفاقی وزیرِ دفاع نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جمعے کو وزیرِدفاع خواجہ آصف، وزیراعظم کے مشیر برائے خاجہ امور سرتاج عزیز سمیت سینئیر فوجی نمائنیدوں پر مشتمل وفد سعوی عرب روانہ ہوگا اور صورتحال کا جائزہ لےگا۔
اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور دیگر خلیجی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کے ساتھ برادرانہ مراسم ہیں اور ان کی سلامتی کو اہمیت دیتا ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے پر پاکستان بھرپور ردِعمل دے گا۔
مکمل تحریر >>

یمن: سعودی کارروائی میں ممکنہ شمولیت، پاکستان مخمصے میں

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف کارروائی میں حصہ لینے کے لیے سعودی عرب کی درخواست کا جائزہ لے رہا ہے۔


پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی یہ عظیم الشان مسجد سعودی عرب کے ایک سابق فرمانروا شاہ فیصل سے موسوم ہے



جمعرات کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان تسنیم اسلم نے کہا، ’میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ سعودی حکومت نے اس سلسلے میں ہم سے رابطہ کیا ہے اور ہم اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ میں فی الحال اتنا ہی کہہ سکتی ہوں‘۔

ترجمان نے یمن میں باغیوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستانی فوج بھجوانے یا نہ بھجوانے سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا۔

انہوں نے کہا کہ یمن میں پاکستانی ایمبیسی بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا، البتہ خراب ہوتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے اپنے سفارتی عملے کو الرٹ کر دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو سفارتی عملے کو وہاں سے نکال لیا جائے گا۔


سعودی عرب نے یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیے ہیں

خیال رہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے ایسی خبریں آئی تھیں، جن کے مطابق پاکستان نے یمن میں حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں سعودی عرب کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اس جنگ میں حصہ لینے کو بھی تیار ہے۔

خارجہ امور کے ایک پاکستانی ماہر طارق پیر زادہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان سے تعاون کی درخواست متوقع تھی۔ انہون نے کہا:’’اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے تعاون مانگا ہے اور یہ اس لیے کہ دونوں ممالک کے درمیان انتہائی قریبی سٹریٹجک تعلقات ہیں تو اب پاکستان کو بس یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس تعاون کی نوعیت کیا ہو گی، یہ زمینی ہو گا، فضائی ہو گا یا اس کی کوئی اور شکل ہو گی۔‘‘

یمن کی موجودہ صورتحال کے پس منظر میں، جہاں حوثی باغیوں کو ایران کی مبینہ حمایت کی بات کی جا رہی ہے تو کیا اس تازہ پیشرفت سے پاک ایران تعلقات پر بھی کوئی اثر پڑے گا؟ اس سوال کے جواب میں طارق پیر زادہ کا کہنا ہے:’’ایران اور پاکستان پہلے بھی کوئی بہت مثالی تعلقات انجوائے نہیں کر رہے لیکن یقیناً پاکستان کی طرف سے یمن میں کسی بھی ممکنہ کارروائی سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان سرد مہری بڑھے گی اور اس سے لمبے عرصے تک دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی آ سکتی ہے۔‘‘


مصری تفریحی مقام شرم الشیخ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں یمنی وزیر خارجہ ریاد یاسین (بائیں) سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کے ساتھ نظر آ رہے ہیں

پاکستان کی موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ دیرینہ قریبی مراسم ہیں۔ اسی سبب جب انیس سو ننانوے میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو گرفتار کیا تو انہیں سعودی حکمرانوں کی مبینہ مداخلت کے سبب ملک سے باہر جا کر سعودی عرب میں قیام کی اجازت دے دی گئی تھی۔

پھر پاکستان نے جب مئی انیس سو اٹھانوے میں بھارت کے جواب میں جوہری دھماکے کیے تو بین الاقوامی پابندیوں کے دور میں سعودی عرب نے تیل کی بلا معاوضہ رسد کے ذریعے پاکستانی معیشت کو سہارا دیے رکھا۔

تاہم گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستانی حکومتوں کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعاون کی ایک جہت اندرون ملک بھی ہے۔ یہ جہت فرقہ وارانہ نوعیت کی ہے۔ ماضی قریب میں جب بحرین کی جانب سے اپنے ملک میں شیعہ مظاہرین پر قابو پانے کے لیے پاکستان سے مظاہرین کو منتشر کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کی بھرتی کی خبریں سامنے آئیں تو مختلف شیعہ تنظمیوں نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ اس عرصے میں دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ایسی وال چاکنگ بھی دیکھی گئی، جس میں سعودی عرب کے شاہی خاندان اور پاکستانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔

بعض ماہرین کے خیال میں پاکستان کو اس معاملے کے فرقہ وارانہ پہلو سے ہٹ کر بھی اپنے زمینی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔

فارن پالیسی کے ایک ماہر مشرف زیدی کا کہنا ہے:’’پاکستان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران ہو یا سعودی عرب، وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں، پاکستان کو بھی اپنے مفاد کو دیکھنا چاہیے۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ بھی دوستی رکھے اور ایران کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر رکھے تو میرے خیال میں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
مکمل تحریر >>

Thursday, March 26, 2015

تاریخی قصبہ - سیت پور!



تحصیل علی پور کے تاریخی قصبہ سیت پور کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ سیت پور، علی پور سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تاریخی قصبہ سیت پورذرخیزی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مرقع ڈیرہ غازی خان اور بندوبست 1872ء محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق اسلام خان نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے لودھی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر مظفر گڑھ کی روشنی میں لودھی حکومت کا صدر مقام سیت پور تھا یہ حکومت راجن پور، شکارپور، علی پور اور کوہ سلیمان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی روایت ہے کہ یہاں کا ایک حکمران بہت ظلم کرتا تھا۔ متاثرہ عوام نے انہیں ’’تابڑ‘‘ کا نام دیا جس کی وجہ سے حکمران’’تابڑ خاندان‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر بہاولپور میں لکھا ہے کہ بہلول لودھی کے چچا اسلام خان لودھی نے جب ریاست کی بنیاد ڈالی تو اس کا صدر مقام سیت پور کو بنایا گیا اس بات کی تصدیق ’’تذکرہ روسائے پنجاب‘‘ سے بھی ہوتی ہے کہ ملتان کے گورنر بہلول لودھی نے اپنے دور میں اپنے چچا اسلام خان کو مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے جنوبی اور سندھ کے شمالی حصے کا ناظم مقرر کیا۔ اسلام خان ثانی اور جلال خان، اسلام خان کے دو بیٹے تھے۔ اسلام خان ثانی سیت پور کی سلطنت کا اور جلال خان نے دکن میں حکمرانی کے مزے لوٹے یوں یہ سلسلہ اسلام خان دوم اکرام خان اور اس کے دو بیٹوں سلطان محمد خان اور شاہ عالم خاں کا چلتا رہا۔ سلطان محمد خان کی حکمرانی اور اصولوں کے ڈنکے طول و عرض میں بجتے تھے پھر اس کے بیٹے طاہر محمد خان نے حکمرانی سنبھالی۔ روایت ہے کہ سخی حکمران ہونے کی وجہ سے یہ ظاہر محمد خان سخی کہلانے لگا۔ اس نے کثیر سرمائے سے اپنے باپ کا مقبرہ اور شاہی مسجد بھی تعمیر کرائی جو اب تک قائم ہے۔ مقبرہ میں طاہر خان سخی اپنے والد سلطان محمد خان کے پہلو میں ابدی نیند سو رہا ہے لیکن اس کے تعمیر کردہ مزار نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے ہشت پہلو مقبرہ اسلامی طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار اس پر ملتانی ٹائل اور نقاشی کا عمدہ کام کیا گیا ہے۔ کھجور کی لکڑی کا مرکزی دروازہ مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ محرابوں کے راستوں نے اسے ہوا دار اور روشن بنا رکھا ہے۔ اس سے ملحقہ سیت پور کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ یہاں بھی ملتانی نقاشی کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جب طاہر خان ثانی کا دور حکومت شروع ہوا تو یہاں کثیر تعداد میں مخادیم آباد تھے جو تابڑ حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں ناظم مقرر تھے۔ 

پاکستان کے آثارِ قدیمہ
مکمل تحریر >>

ہانگ کانگ کی مچھلی منڈی اور مولانا کا تفریحی دورہ

میں تین دن سے مسلسل کوشش کر رہا تھا کہ جس بلڈنگ میں قیام پذیر ہوں اس کے آخری سرے کو دیکھ سکوں یا کم ازکم پوری بلڈنگ کو ہی دیکھ سکوں، مگر مسلسل ناکام ہو رہا تھا۔ باہر نکل کر جب بھی اوپر منہ اٹھا کے اسے دیکھنے کی کوشش کی ناکامی ہوئی۔ بلڈنگ اس طرح تعمیر ہوئی ہے کہ نیچے کھڑے ہوں تو اوپر سے پوری نظر نہیں آتی۔ تھوڑی دور جا کر دیکھنے کی کوشش بھی اس لیے ناکام ہو گئی کہ درمیان میں دوسری اونچی اونچی عمارتیں حائل ہو گئیں۔ لیکن آج اپنی بلڈنگ کو دیکھنے کی حسرت پوری ہوئی۔ ہانگ کانگ کے ساحل پرکھڑے ہو کر 'لوکون‘ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قیصر نے بتایا کہ وہ سامنے آئی سی سی ٹاور ہے۔۔۔۔۔ ہانگ کانگ کی بلند ترین عمارت‘ اور دائیں طرف ایک سرخی مائل عمارت نظر آ رہی ہے،اسی ٹاور میں آپ لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یہ عمارت آئی سی سی ٹاورکے مقابلے میں بچہ لگ رہی تھی۔
میں گزشتہ تین دن سے اس کی مختصر سی بالکونی میں سے باہر جھانکتا ہوں تو بائیں ہاتھ نیچے ایک سکول پر نظر پڑتی ہے۔ صبح جب میں اٹھتا ہوں تو اس پر نظر ڈالتا ہوں۔ آج پہلا دن تھا کہ اس میں بچے نظر آئے۔ کل اور پرسوں یعنی ہفتہ اور اتوارکوچھٹی تھی۔ یہ ''سرایلس کدوری سیکنڈری سکول‘‘ ہے۔ یہ سکول آٹھ منزلہ ہے مگر اٹھاون منزلہ ٹاورکے سامنے چوزہ سا لگتا ہے۔ اس سکول کو روزانہ دیکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر اسی سکول میں پڑھتے رہے۔ عزیز بھٹی شہید 1928ء میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے۔ صرف چودہ سال کی عمر میں جاپان کی شاہی بحری فوج میں بھرتی ہوئے۔ تب ہانگ کانگ پر جاپان کا قبضہ تھا۔ 1947ء یعنی قیام پاکستان تک رائل انڈین ایئرفورس میں بطورکارپول فرائض ادا کیے اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان آرمی میں آ گئے۔ 1965ء میں سینتیس سال کی عمر میں شہید ہوئے اور پاکستان فوج میں بہادری کا اعلیٰ ترین اعزاز ''نشان حیدر‘‘ کا اعزاز پایا۔ برکی کے محاذ پر شہید ہونے والے میجر عزیز بھٹی یہ اعزاز حاصل کرنے والے تیسرے پاکستانی فوجی تھے۔
آج 23 مارچ کی تقریب تھی جس کا اہتمام پاکستانی قونصلیٹ ہانگ کانگ نے کیا تھا۔ تقریب ہانگ کانگ میری ٹائم میوزیم کے ہال میں تھی۔ پتا چلاکہ ہانگ کانگ میں یہ تقریب کئی عشروں کے بعد ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف پاکستانی تنظیموں نے بھی تعاون کیا تھا۔ میں اور عباس تابش مشاعرے کے سلسلے میں ہانگ کانگ آئے ہوئے ہیں جس کا اہتمام بزم سخن ہانگ کانگ نے کیا ہے ۔ بزم سخن کے صدر گلزار حسین ساگر اور نائب صدر محمد لیاقت نے ادب کی ترویج کا بیڑہ اٹھارکھا ہے۔ گلزار حسین ساگر نے یہاں ایک لائبریری بھی بنا رکھی ہے جس میں سات ہزار کے لگ بھگ اردو کتابیں ہیں۔ محمد لیاقت ہانگ کانگ میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ پاکستانی تنظیم اسلامک ویلفیئر یونین کا صدر ہے اور پاکستانی کمیونٹی اورادبی سرگرمیوں کے حوالے سے خاصا متحرک ہے۔ بزم سخن اس سے قبل بھی مشاعرے کروا چکی ہے اور اس حوالے سے جناب انور مسعود اور امجد اسلام امجد بھی ہانگ کانگ میں پاکستانی کمیونٹی کو اپنے شعروں سے مستفیدکر چکے ہیں۔
ہانگ کانگ میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے‘ جس میں سے دو لاکھ کا تعلق صرف انڈونیشیا سے ہے۔ پاکستانیوں کی تعداد بیس ہزارکے قریب ہے۔ ہانگ کانگ میں پاکستانیوںکی مختلف تنظیمیں فعال ہیں۔ ان میں پاکستان ایسوسی ایشن ہانگ کانگ کے علاوہ حال ہی میں بننے والا پاکستان چیمبر آف کامرس ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی تاجر حضرات کی ایک اچھی کاوش ہے۔ اس تنظیم کا صدر نوجوان تاجر جاوید اقبال ہے۔گزشتہ سال بننے والی پاکستانی تاجروںکی اس نمائندہ تنظیم کا افتتاح ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو C.Y.Leung نے کیا تھا۔ آج قونصلیٹ کی جانب سے یوم پاکستان کے سلسلے میں ہونے والی تقریب کا مہمان خصوصی ہانگ کانگ کا سیکرٹری فنانس جوہن چانگ تھا۔ چھوٹی سی اس باوقار تقریب کا آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا‘ جو قونصل جنرل پاکستان اور فنانشل سیکرٹری ہانگ کانگ کے مختصر سے خطاب کے بعد اختتام پذیر ہوگئی۔
مشاعرہ زور دار تھا اور رات گئے تک جاری رہا۔ مشاعرے کے بعدکھانے کی میز پر خوب گپ شپ ہوئی۔ پاکستان ایسوسی ایشن ہانگ کے سابق صدر شہزادہ سلیم کا تعلق ملتان سے ہے۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن چھوڑکر شپنگ کا اپنا بزنس کرنے والا شہزادہ سلیم ہانگ کانگ میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل کے حوالے سے بہت متحرک ہے۔ تقریباً سات سال تک ایسوسی ایشن کا صدر رہنے کے بعد آج کل ذمہ داریوں سے فارغ ہے مگرکام سے فارغ نہیں ہے۔ ہم دونوں نے اتنی سرائیکی بولی کہ بقول شہزادہ سلیم ''دل کی حسرت پوری ہوگئی‘‘۔ میرے کچھ ٹھیٹھ سرائیکی الفاظ سن کر کہنے لگا، یہ لفظ کم از کم بارہ پندرہ سال بعد سننے نصیب ہوئے ہیں۔ مشاعرے کے بعد فراغت تھی لہٰذا دوستوں نے محفلیں لگانی شروع کردیں۔ ہانگ کانگ میں دنیا نیوز کے نمائندے طاہر اقبال چودھری نے ''بیٹرمنٹ یوتھ ایسوسی ایشن آف ہانگ کانگ‘‘ کے نوجوانوں کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیا۔ اس میں تنظیم کے سربراہ محمد عرفان کے علاوہ محمد ناصر‘ قیصر قیوم‘ حامد صدیقی‘ محمد امتیاز اور چاچا راجہ موجود تھے۔ پاکستانی قونصلیٹ میں پریس کونسلر علی نواز ملک نے دفتری اوقات کے بعد بھی بہت خیال رکھا۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے علی نوازکے بقول یہ اس کی جرنلزم سے محبت کا اظہار ہے نہ کہ سرکاری ڈیوٹی۔ مجھ سے اس کی محبت صحافت کے طفیل اور عباس تابش سے اس کی شاگردی کی وجہ سے تھی۔
پاکستانی کمیونٹی ملکی حالات سے بڑی پریشان تھی۔ ویسے تو دیار غیر میں ہر پاکستانی پاکستان کے بارے میں فکرمند نظر آتا ہے مگر ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی جب پاکستان اور ہانگ کانگ کا موازنہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ آخر پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے؟ ہانگ کانگ میں کوئی فصل پیدا نہیں ہوتی، گیس نہیں ہے، تیل نہیں ہے، کوئی خام مال نہیں ہے حتیٰ کہ پانی تک نہیں ہے؛ پینے کا پانی کنٹینروں میں چین سے آتا ہے، گائے اور بکرے کے گوشت سے لے کر پیاز‘ ٹماٹر‘ سبزیاں اور دھنیا تک درآمد ہوتا ہے لیکن ایک سیکنڈ کے لیے بجلی نہیں جاتی۔ زرمبادلہ کے ذخائر تین سو پچیس ارب ڈالر ہیں جو بھارت کے برابر ہیں۔ ہانگ کانگ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے دنیا میں دسویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان اڑسٹھویں نمبر پر۔ رقبے کے اعتبار سے پاکستان دنیا بھر میں چونتیسویں نمبر پر ہے جبکہ ہانگ کانگ ایک سو تراسیویں نمبر پر ہے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر جبکہ ہانگ کانگ سوویں نمبر پر ہے۔ گنجان ترین آبادی کے لحاظ سے ہانگ کانگ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، یہاں فی مربع کلو میٹر آبادی 6400 کے لگ بھگ ہے جبکہ پاکستان اس سلسلے میں پہلے دس ممالک میں شامل نہیں ہے۔ جی ڈی پی کے اعتبار سے ہانگ کانگ دنیا میں چالیسویں اور پاکستان چھیالیسویں نمبر پر ہے۔ 73 لاکھ آبادی والے ہانگ کانگ کا جی ڈی پی 274 ارب ڈالر جبکہ اٹھارہ کروڑ والے پاکستان کا جی ڈی پی 225 ارب ڈالر ہے۔ ہانگ کانگ میں ہر پانچواں شخص خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے مگر یہاں خط غربت سے مراد ہے کہ جو شخص3275ہانگ کانگ ڈالر فی مہینہ کماتا ہے ۔ اس حساب سے اس کی روزانہ آمدنی پاکستانی غریب کی دو امریکی ڈالر فی یوم کے مقابلے میں چودہ امریکی ڈالر فی یوم بنتی ہے۔
باقی باتیں چھوڑیں، ہانگ کانگ میں ایک اردو محاورے کا دھڑن تختہ ہوتے دیکھا۔ ہم افراتفری‘ ہنگامہ خیزی‘ بدتہذیبی اور گالم گلوچ ٹائپ والی صورت حال پر ایک اردو محاورہ سنتے تھے کہ فلاں جگہ مچھلی منڈی بنی ہوئی تھی۔ اس محاورے کا سب سے مناسب استعمال ہمیشہ اسمبلی وغیرہ کی اندرونی صورت حال پر ہوتے دیکھاکہ فلاں ممبر نے یہ کہا اور پھر اسمبلی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگی یا فلاں ممبر نے فلاں پارٹی کے لیڈر کے بارے میں ریمارکس دیے تو اسمبلی مچھلی منڈی بن گئی۔ ہانگ کانگ میں مچھلی منڈی دیکھی۔ اتنی صفائی‘ ترتیب‘ تہذیب‘ نظم و ضبط اور خاموشی دیکھی کہ عشروں سے سنا ہوا محاورہ ''مچھلی منڈی بننا‘‘ ذہن میں بالکل تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ مچھلی منڈی میں کھڑے ہوکر دعاکی کہ اللہ میاں! ہماری اسمبلیوںکو ہانگ کانگ جیسی مچھلی منڈی بنا دے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اس دعا پر صبح صبح آمین کہیں، کیا پتا ہماری سنی جائے۔
جاتے جاتے یاد آیا، کل کولون کے ساحل پر ''ریونیو آف سٹارز‘‘ کے ایک بنچ پر مولانا فضل الرحمن کو بیٹھے ''سمندر‘‘ کا نظارہ کرتے دیکھا۔ چین کے پانچ روزہ سرکاری دورے کے بعد انہیں ہانگ کانگ کے تین روزہ غیر سرکاری دورے کے دوسرے روز عوامی مصروفیات میں غلطاں دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔ سینیٹ کی ڈپٹی چیئرمینی لے اڑنے کے بعد یہ تفریحی دورہ ان کا حق بنتا تھا۔
مکمل تحریر >>

دہشت گرد اپنی قبر خود کھود رہے ہیں!

جموں کے کٹھوا اور سانبا سیکٹر میں حملہ کر کے دہشت گردوں نے وزیر اعلیٰ مفتی سعید کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کو واضح طور پر خبردار کر دیں۔ مفتی صاحب نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی جس ایجنڈے کا اعلان کیا تھا‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی اور بی جے پی کی حکومت ایسے کام کرے گی‘ جن سے جموں اور وادی کے رشتے ٹھیک ہوں گے‘ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھائی چارہ بڑھے گا اور بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ اگر یہ عمل چلتا رہتا تو مندرجہ بالا تینوں ہدف تو پورے ہوتے ہی‘ دہشت گردوں کو بھی راحت ملتی۔ انہیں دہشت پھیلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی‘ لیکن دہشت گردوں نے اب جموں میں جو حملے کئے‘ ان کے نتیجے میں انہوں نے خود ہی اپنی قبر کھود لی ہے۔
مفتی صاحب کو اب سختی برتنا پڑے گی۔ اب لگتا ہے کہ سری نگر میں چل رہی سرکار کو وفاق اور بی جے پی کے اشاروں پر ناچنا پڑے گا۔ دہشت گردوں کی کرتوتوں نے مفتی صاحب کو کمزور کر دیا ہے اور وفاق کو مضبوط بنا دیا ہے۔ مفتی صاحب چاہ رہے تھے کہ فوج کے اختیارات کچھ کم ہوں اور کچھ علاقوں سے اس کی واپسی ہو۔ اس کے لئے وفاق بھی تیار ہو رہا تھا‘ لیکن دہشت گردوں نے فوج کے ہاتھ ایک بار مضبوط کر دیے ہیں۔ اب ایک بار پھر فوج کے مخصوص حق کے قانون کم ہونے کے بجائے بڑھیں گے۔ اگر مفتی صاحب جیسے حکمران کی حکومت میں اس طرح کے واقعات ہوں تو کون ڈھیل دینے کی وکالت کر سکتا ہے؟
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں نے پاکستان کو بھی سنگین اور شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں پاکستان مخالف نعرے لگنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ نعرے بی جے پی کے صوبائی ارکان نے لگائے تھے جبکہ مرکز کی بی جے پی سرکار نے اپنا خارجہ سیکرٹری اسلام آباد بھیجا تھا۔ اب بھارت کی وفاقی سرکار حریت والوں سے پاکستانی قونصلیٹ کی بات چیت کو بھی منع نہیں کر رہی ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں نے پلستر میں کچرہ کر دیا۔ مفتی صاحب نے نواز شریف سرکار سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ انتہا پسندوں کو لگام دے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دہشت گردی کا لنک بیرونی ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کو چاہیے کہ وہ نریندر مودی سے سیدھی بات کریں یا دونوں ملکوں کے وزیر داخلہ سیدھی بات کریں۔ دہشت گردی کے ان واقعات کی وجہ سے پاک بھارت مذاکرات کی گاڑی پٹڑی سے نیچے نہیں اترنی چاہیے۔
تھوک ریزرویشن غیر ضروری
سپریم کورٹ نے جاٹوں کی ریزرویشن (یعنی کوٹا )کو رد کر دیا ہے ۔پچھلی سرکار نے جاٹوں کی گنتی دوسرے پسماندہ طبقوں میں کر کے انہیں ریزرویشن دیا تھا۔اس ریزرویشن کی وجہ سے بیک ورڈ والے سبھی کو ملنے والے ٹوٹل میں 27 فیصد ریزرویشن میں کٹوتی ہو رہی تھی ۔وہ ناراض ہو رہے تھے لیکن کانگریس سرکار نے عام چناو ٔ کے پہلے9 صوبوں میں جاٹوں کو تعلیم اور نوکریوں میں ریزرویشن دے دیا۔اس کا مقصد صرف ایک تھا۔جاٹوں کے تھوک ووٹ حاصل کرنا۔اپنے مطلب کیلئے لیڈر لوگ اپنے ملک کوکیسے نقصان پہنچاتے ہیں ‘اس کی مثال ہے ‘یہ قدم! ہمارا سماج ٹکڑوں میں بٹ جائے اور مختلف طبقوں میں حسداور نفرت پھیل جائے ‘اس کی فکر انہیں نہیں ہے۔جاٹ لوگ بھی ان کی فکر کیوں کرتے ؟انہیں جب کئی چیزیں مل رہی ہیں تو وہ منع کیوں کریں ۔ہاں ‘کئی چودھریوں کو میں نے یہ کہتے بھی سنا ہے کہ کون ہوتا ہے ہمیں بیک ورڈ کہنے والا؟ حقیقت میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اکانومی اور معاشرتی ناپ تول کے مطابق جاٹوں کو بیک ورڈ نہیں مانا جاسکتا۔پرانے آنکڑوں (سروے ) کے بنیاد پر کسی بھی طبقے کوریزرویشن دینا ٹھیک نہیں ہے ۔
میری گزارش ہے کہ ذات کی بنیاد پرریزرویشن دینا ریزرویشن کا مذاق ہے۔ ریزرویشن کی اس سے بڑی بے حرمتی کیا ہوگی کہ آپ ریزرویشن دیتے وقت اپنی آنکھ بند کرلیں ۔جسے ریزرویشن دے رہے ہیں‘ اس کی اکانومی اور سماجی حالت کا جائزہ کئے بنا ہی اسے تھوک میں ریزرویشن دے دیں ۔وہ انسان ہیں یاجانور ہیں‘ جیسے جانوروں کو تھوک میں ہانکا جاتا ہے ‘ویسے ہی آپ تھوک میں ریوڑیاں بانٹ رہے ہیں ۔ملائم یا لالو کیا بیک ورڈ ہیں ؟مایا وتی کیا دلت ہیں؟مایاوتی تو بڑے بڑے لوگوں کی دلتی رہی ہے ۔ایسے لوگوں کا یا ان کے رشتے داروں کوریزرویشن کی تک کیا ہے؟ ریزرویشن کی بنیاد ذات کو اس لیے بنایا گیا تھا کہ اس وقت ٹھیک ٹھیک آنکڑے (تخمینے )حاصل نہیں تھے۔اب تو ہر آدمی کے بارے میں ضروری جانکاری موجود ہے ۔اس لیے تھوک میں ریزرویشن فوراً ختم کیا جانا چاہئے۔صرف تعلیم میں ریزرویشن دی جانی چاہئے اور صرف انہیں ہی دی جانی چاہئے ‘جو غریب اور مسکین ہوں ‘لائق ہوں اور سچ مچ بیک ورڈ ہوں ۔جنم سے نہیں ‘عمل سے ۔
مکمل تحریر >>

چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں

کراچی میں رینجرز نے بیریئرز ہٹانے کا آغاز سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے گھر سے کیا‘ 1990ء کے عشرے میں لاہور کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لیے میئر کے طور پر میاں محمد اظہرنے کارروائی اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ایک قریبی عزیز کی طرف سے قائم تجاوزات ہٹا کر کی تو اپنے بیگانے سب نے داد دی ۔شریف خاندان نے بھی سراہا کہ ان دنوں ہر معاملے کو سیاست اور ذاتی و خاندانی مفاد کی عینک سے دیکھنے کا رواج نہ تھا۔
یہ تجاوزات کے خلاف کامیاب مہم کا نقطہ آغاز تھا۔ ہر شہری کے لیے واضح پیغام کہ اگر بیڈن روڈ پر وزیر اعظم کے قریبی اور قابل احترام عزیز کی دکان کا تھڑا گر سکتا ہے تو کسی دوسرے کو امان کیوں؟ بلدیہ لاہور کے بلڈوزر چلے تو ہر تھڑے ‘ دیوار‘ دکان‘ کھوکھے اور رکاوٹ کو مسمار کرتے چلے گئے ۔ حتیٰ کہ شہر کا ہر گلی کونا نکھرنے لگا۔
کراچی میں آپریشن دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز ‘ اغواکاروں‘ بھتہ خوروں کے خلاف شروع ہوا ہے۔ بیریئر چونکہ آپریشن میں رکاوٹ ڈالتے ہیں لہٰذا رینجرز نے چار پانچ روز قبل انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ شہریوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے ان کا جینا حرام ہو چکا تھا‘ جگہ جگہ تلاشی‘ آمدو رفت میں دقّت اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ طاقتور افراد اورتنظیموں کے بد لحاظ اورجھگڑالو کارکن اور نام نہاد سکیورٹی کمپنیوں کے اجڈ اور گنوار گارڈز کی طرف سے بدتمیزی کون سا شریف آدمی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتا ہے مگر ظلم کے آگے زاری‘ جنگل کا قانون رائج ہو تو پابندی ہر کمزور کو کرنی پڑتی ہے۔
سابق آرمی چیف کے گھر سے بیریئر ہٹا کر رینجرز نے اپنی نیک نیتی اور سنجیدگی ظاہر کی ہے اور ایم کیو ایم ‘ پیپلز پارٹی ‘ اے این پی‘ سنی تحریک اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ شہر کو ایک کھلا اور محفوظ شہر بنانے کی راہ پر گامزن ہے اور کسی نوگوایریا کی موجودگی برداشت نہیں کرتی‘ خواہ وہ حفاظتی اقدامات کے نام پر قائم ہوں یا کسی شخص یا گروہ کی طاقت و قوت اور شان و شوکت کے اظہار کے لیے ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دفاتر بھی موجود ہیں اور جسٹس رفیق تارڑ‘ سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کی رہائش گاہیں بھی‘ جن کے سامنے سے ٹریفک گزرتی ہے اور ان کے دفاتر اور گھروں کے سامنے سے گزرنے والے پاکستانیوں کو ذلت آمیز تلاشی اور رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے رہنما اور حکمران قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں اور اپنے قول و فعل سے قانون کی پاسداری اور مثبت روایات کی حوصلہ افزائی کا تاثر ابھارتے ہیں مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم نرالا ہے ۔ یہاں سیاستدانوں اور حکمرانوں نے الا ماشاء اللہ ہمیشہ قانون کی مٹی پلید کی اور اچھی روایات کا قلع قمع کیا ۔یہاں جرم‘ سیاست و حکومت کی چھتر چھایا میں پروان چڑھا اور صرف کراچی ہی نہیں ملک کے دوسرے صوبوں میں ہر دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر‘ اغوا کار‘ بھتہ خور‘ ڈاکو‘ سمگلر ‘ منشیات فروش اور راہزن کو کسی نہ کسی سیاسی تنظیم‘ گروہ اور رہنما کی سرپرستی حاصل رہی‘ تبھی جرم پھلتا پھولتا رہا۔
کیا خیال ہے دس دس پندرہ پندرہ سال تک سزا یافتہ قاتل کسی قانونی پیچیدگی یا انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے کیفر کردار تک نہ پہنچ سکے یا سیاسی دبائو بروئے کار آیا؟ ہر حکمران اور سیاستدان نے جرم‘ لاقانونیت اور لوٹ مار سے اس لیے چشم پوشی کی کہ اس کا اپنا اور چہیتوں کا دائو بھی لگا رہے۔ اس حمام میں سب ننگے جو ہوئے۔ مگر اب شاید قدرت کو اس قوم پر رحم آیا ہے خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ شمالی وزیرستان سے شروع ہونے والے آپریشن کا دائرہ وسیع ہونے لگا ہے۔ صرف مجرم اس کی زد میں نہیں آ رہے بلکہ ان کے سرپرستوں کے چہرے بھی بے نقاب ہونے لگے ہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی سے خائف سیاسی وڈیرے اور لٹیرے اپنے گماشتوں اور کارندوں کو بچانے کے لیے نئی جتھے بندی کر رہے ہیں۔
کراچی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے‘ دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز ‘ اغوا کاروں اوربھتہ خوروں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور اس آپریشن پر مخالفانہ آوازیں بھی مدہم پڑنے لگی ہیں‘ کیونکہ فوجی قیادت اور وفاقی حکومت نے ابھی تک کمزوری دکھائی نہ اپنے موقف میں لچک پیدا کی۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق برطانوی حکومت کے ذریعے حکومت کو موصول ہونے والا مشروط معافی نامہ بھی فی الحال زیر التوا ہے البتہ ایک وقت میں کئی محاذ نہ کھولنے کی حکمت عملی کے تحت فی الحال آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ اور دوسرے گروپوں تک وسیع نہ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وفاقی حکومت نہیں چاہتی کہ پیپلز پارٹی کھل کر ایم کیو ایم کا ساتھ دے اور سندھ حکومت رینجرز کو واپس بلانے کی ریکوزیشن داغ سکے۔
مگر کیا یہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کا دانشمندانہ فیصلہ ہو گا؟ کیا محض اپنی شان و شوکت برقرار رکھنے اور بلاول ہائوس کو ہر قاعدے ‘ قانون اور کارروائی سے مستثنیٰ ثابت کرنے سے سندھ اور کراچی کو فائدہ ہو گا اور پیپلز پارٹی کے علاوہ بلال ہائوس کے مکینوں کے بارے میں عوامی سطح پر خوشگوار اور مثبت جذبات جنم لیں گے؟ یہ صرف سندھ حکومت نہیں وفاقی حکومت کوبھی سوچنا چاہیے۔ جان و مال کا تحفظ کیا صرف سابق صدور اور طاقتور افراد کا حق ہے؟ لوگ ٹیکس ان کی شان و شوکت برقرار رکھنے کے لیے دیتے ہیں؟ عام آدمی کا بھی کوئی پرسان حال ہے یا نہیں؟ قانون کے امتیازی اطلاق کی بنا پر ہی تو مسلح جتھے وجود میں آئے اور سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ بنے۔
ایم کیو ایم کے لیے نشو و نما اور بقا کا راستہ اب بھی کھلا ہے وہ ایک پُرامن اور اختلاف رائے برداشت کرنے والی سیاسی جماعت کے طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے۔ الزامات کے باوجود اس کے کسی رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو آج تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے چھیڑاگیا نہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری اور مہلک‘ غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے باوجود نائن زیرو مرکز کی تالہ بندی ہوئی‘ لہٰذا ان گرفتار شدگان یا فی الحال مفرور‘ ان کے جرائم پیشہ ساتھیوں کی خاطر ایم کیو ایم کو اپنی سیاست دائو پر نہیں لگانی چاہیے اور مخالفین کے اس تاثر‘ الزام کو درست ثابت نہیں کرنا چاہیے کہ عسکری ونگ کے بغیر ایم کیو ایم ایک دن سیاست نہیں کر سکتی۔ اگر الطاف بھائی سمیت اہم ترین لیڈروں کو اپنے مناصب کی قربانی بھی دینی پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ اب سابق طور طریقے چل سکتے ہیں نہ قومی اداروں کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل۔
قوم تو اس آپریشن کے بارے میں پُرامید ہے مگر گورنر کی تبدیلی‘ عزیر بلوچ کی واپسی میں تاخیر اور آصف علی زرداری کے ناقابل فہم طرز عمل کے علاوہ سندھ حکومت کی ڈھلمل یقین پالیسی کی وجہ سے دودھ کے جلے کراچی والے چھاچھ کو فی الحال پھونکیں مار رہے ہیں ماضی کے دو آپریشنوں کا حشر وہ دیکھ چکے اور ان میں جوش و جذبے سے حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں کا انجام بھی۔ انہیں خوف یہ ہے کہ آپریشن کا دائرہ وسیع ہوا‘ زد‘ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں‘ قاتلوں اور لٹیروں پر پڑی تو یہ اپنے چھوٹے موٹے سیاسی اختلافات بھلا کر ایک بار پھر اکٹھے ہو جائیں گے اور فوج اور رینجرز کے خلاف یوں صف آرا ء ہوں گے جیسے یہ قومی ادارے واقعی کریمنلز کو نہیں جمہوریت کے محافظوں کی سرکوبی کر رہے ہیں‘ بے چاری جمہوریت! ایک جرائم پیشہ کو سیاسی کارکن اور جمہوریت پسند بنتے اور سیاستدانوں کو اپنا موقف بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ برسوں سے یہ تماشا جاری ہے اور قوم کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کسی کو مجرم‘ قانون پسند‘ جمہوریت پرست اور جمہوریت دشمن قرار دینے کا معیار کیا ہے؟
رینجرز کراچی کی ہر سڑک‘ گلی‘ محلے میں قائم دفتر اور محل کے سامنے سے بلا امتیاز و تفریق بیریئر ہٹانے میں کامیاب رہی اور کوئی سیاسی مصلحت ‘ انتظامی حکم اور حفاظتی بہانہ رکاوٹ نہ بنا تو سمجھیے کہ آپریشن کے اگلے مراحل بھی کامیابی سے ہمکنار ہو ں گے۔ کہیں خود ساختہ حفاظتی رکاوٹیں نظر آئیں گی نہ مسلح جتھے اور نہ ریاستی اداروں کے ذریعے مخالفین کی سرکوبی کا ماحول۔ جرائم پیشہ افراد اعلیٰ ایوانوں میں نہیں سلاخوں کے پیچھے نظر آئیں گے۔اور سیاست عوام دوست شرفا کا مشغلہ قرار پائے گا۔
عزم راسخ‘ نیک نیتی اور محنت کبھی رائگاں نہیں جاتے ؎
تو محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا‘ ہوا جانے خدا جانے
خزاں دا خوف تے مالی کوں بزدل کر نہیں سگدا
چمن آباد رکھ‘ بادِ صبا جانے‘ خدا جانے
اے پوری تھیوے نہ تھیوے‘ مگر بے کار نئیں ویندی
دعا شاکر تو منگی رکھ‘ دعا جانے‘ خدا جانے
مکمل تحریر >>

امریکہ پھر آ رہا ہے

میں نے امریکہ کو کئی بار پاکستان میں آتے اور جاتے ہوئے دیکھا ہے۔اب تو میں اس کے قدموں کی آہٹیں پہچاننے لگا ہوں۔ ابتداء میں یہ آہٹیںبڑی بلند ہوتی تھیں‘ بلکہ امریکہ خود انہیں نمایاں کرتا تھا۔ پہلی آمد ''تھینک یو! امریکہ‘‘ کے ساتھ ہوئی۔ خیرات میں دی جانے والی امریکی گندم ہمیں مفت دے کر احسان کیا جاتا تھا۔ دو ہاتھ مصافحہ کرتے نظر آتے اور ریلوے انجنوں سے لے کر ایئر پورٹس‘ نہروں اور راجباہوں کے پلوں پر ایک چھپا چھپایا بینر چسپاں ہوتا۔ ایک ہاتھ کی آستین پر امریکی پرچم اور دوسرے کی آستین پر‘ پاکستانی پرچم دکھائی دیتا اور نیچے لکھا ہوتا ''تھینک یو! امریکہ۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنے پاکستان کی‘ جس گندم کو کھانے کے عادی تھے‘ اس کی لذت ہی کچھ اور تھی۔ ہمارے لئے امریکی گندم بدذائقہ تھی اور جہاں جہاں بھی یہ دی گئی‘ شاید ہی کسی نے کھائی ہو۔ بیشتر لوگ اسے اونے پونے داموں بیچ دیتے اور اس گندم کا آخری ٹھکانہ ہمارے مویشیوں کی کھرلیاں ہوتیں۔ اب تو ہماری زمین کا ذائقہ رکھنے والی اصل گندم سے پکی روٹی کسی بڑے جاگیردار کے گھر میں دیکھنے کو مل جائے‘ تو مل جائے‘ ورنہ وطن کی مٹی میں اگی ہوئی گندم کے آٹے کی خوشبودار روٹی کا تو نئی نسل کو پتہ بھی نہیں ہو گا۔ امریکہ نے عام آدمی کو اپنی بدمزہ گندم دے کر‘ ہمارے حکمرانوںکو ڈالروں کی ایسی لت لگائی کہ وہ خود بھی ہمارے لئے امریکی گندم بن کر رہ گئے۔ بدمزہ‘ بدذائقہ اور بدلحاظ آدمی۔ ہمارے اقتدار کے ایوانوں میںانسان شاذونادر ہی آتا ہے۔ پہلی بار 1965ء کی جنگ کے بعد‘ امریکہ ہم سے رخصت ہوا۔ 1970ء میں یحییٰ خان پر مہربان ہوا۔ مگر اس مہربانی کے دور میں‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نقشے میں رنگ امریکہ نے ہی بھرے تھے۔ باقی ماندہ پاکستان کی حکومت کے لئے‘ امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی منظوری دی۔ لیکن بھٹو صاحب نے جلد ہی آزادی و خودمختاری حاصل کرنے کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے۔ اردن کی لیبارٹری میں تیار کردہ ایک فوجی افسر‘ جو پاکستان آ کر جنرل بن گیا‘ اس پر امریکہ کو بہت بھروسہ تھا۔ اس کے دور میں امریکہ پھر مہربان ہوا‘ اور اب کے ہمیں دہشت گردوں‘ اسلحہ اور ڈالروں کی امداد ملی۔ یہ امداد ‘ امریکی گندم سے بھی زیادہ بدذائقہ بلکہ بدبو دار نکلی۔
اس نئی امریکی امدادنے‘ ہماری آزادی اور ہمارے خون‘ دونوں کو پینا شروع کیا‘ جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ضیاالحق کی قسمت میں بیوفائی ہی لکھی تھی۔ انہوں نے پہلی بیوفائی اپنے محسن بھٹو سے کی‘ جس نے تین سینئر جنرلوں کو‘ آرمی چیف بننے کے حق سے محروم کرتے ہوئے‘ ضیاالحق کو نیچے سے اٹھا کر چیف آف آرمی سٹاف بنایا‘ مگر ان کی اصل وفاداری امریکہ کے ساتھ تھی۔ جیسے ہی امریکہ کو ضرورت پڑی‘ جنرل ضیاالحق نے درپردہ اپوزیشن لیڈروں کو بھٹو کے خلاف منظم کر کے‘ انتخابات میں پھڈا ڈالنے کی خاطر میدان میں اتارا۔ ریاستی جبر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ضیاالحق کے کنٹرولڈ اور خریدے ہوئے میڈیا نے‘ عوامی تائید و حمایت سے محروم چند سیاستدانوں کو احتجاج پر لگا کر ایسا نقشہ باندھا کہ اسے عظیم عوامی تحریک کا نام دے دیا گیا۔ ضیاالحق کی مہربانیوں سے فیض یاب میڈیا والے‘ آج بھی چائے کی پیالی میں اٹھنے والے تحریک کے اس طوفان کو حقیقی احتجاجی تحریک قرار دیتے ہیں ۔ میڈیا پر انہیں باقاعدہ منصوبے کے تحت مسلط کیا گیا تھا۔ آزادی پسند صحافیوں کو چن چن کر بیروزگار کیا گیا۔ وہ میڈیا والے آج تک ضیاالحق کے گن گاتے ہیں اور آج بھی اگر کوئی اس کے اصل کردار کا ذکرچھیڑ دے‘ تو وہ اپنے بلی جیسے پنجوں سے اس کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ بھٹو کی طرح ضیاالحق پر احسان کرنے والا بھی امریکہ تھا۔ جب ضیاالحق نے دیکھا کہ روس کو افغانستان میں پسپائی اختیار کرنا پڑے گی‘ تو انہوں امریکہ سے بھی بیوفائی کی ٹھان لی اور افغانستان میں اپنی من مانیوں کی تیاریاں کرنے لگے۔ امریکیوں نے اس بیوفائی کو بھانپ لیا اور اس مرتبہ بھٹو کی بجائے‘ جان دینے کی باری ضیاالحق کی تھی۔ ان کے بعد اختیارات جونیئر جنرلوں کے ہاتھ لگے۔ جنرل ضیا کے انجام سے‘ یہ سب سہمے ہوئے تھے۔ جمہوریت کا ڈرامہ رچانے کے لئے جو حکمران دستیاب ہوئے‘ وہ نوآموز اور ناتجربہ کار تھے۔ جنرلوں نے ان دونوں کو باری باری خوب استعمال کیا اور پھر خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔ امریکیوں نے نئے جنرل کا عہد وفا‘ تین شرطوں پر قبول کیا۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ میڈیا پر کوئی پابندی نہیں لگائے گا اور اسے مکمل آزادی فراہم کی جائے گی۔ امریکہ کو آزادیٔ اظہار سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ میڈیا کی آزادی اس نے اس لئے مانگی تھی کہ جنرل کے قدم جمنے نہ پائیں۔ جنرل مشرف کو وہ مکمل اتھارٹی کبھی نہ مل پائی‘ جو جنرل ضیاالحق نے 1977ء سے لے کر 1985ء تک استعمال کی۔ مشرف کے جانے کے بعد‘ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ وزیراعظم بھی انہی کی پارٹی کا تھا۔ امریکہ کے لئے دونوں ہی ناقابل اعتبار تھے۔ ان دونوں کو بھی عوامی تائید و حمایت حاصل کرنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا اور ان کا جو شوق تھا‘ وہ ان دونوں نے اپنے حواریوں سمیت جی بھر کے پورا کیا۔ اسی شوق کی خاطر آج بھی اپنی روایتی حریف جماعت ‘ ن لیگی حکومت کی خدمت گزاری میں لگے ہیں۔
امریکہ ایک بار پھر اپنے وفادار فوجی حکمرانوں سے مایوس ہوا۔ جب اسے پتہ چلا کہ یہ جنرل ڈالر لے کر‘ امریکہ کے دشمن چھاپہ ماروں کو دیتے ہیں اور وہ امریکہ ہی کا اسلحہ استعمال کر کے‘ امریکی فوجیوں کو پھڑکاتے ہیں۔ امریکہ کی ریاستی پالیسیاں خواہ کچھ ہوں‘ لیکن بھٹو صاحب کے الفاظ میں ''امریکہ ایک ہاتھی ہے‘ جو کبھی معاف نہیں کرتا۔ کچھ بھی ہو جائے انتقام لے کر رہتا ہے۔‘‘ میرے ذہن میں بھی امریکہ کے سامراجی کردار کی بے شمار کہانیاں محفوظ ہیں۔ ایسی ایک بھی کہانی نہیں‘ جس میں امریکہ نے بیوفائی یا بغاوت کرنے والے ‘کسی نام کے اتحادی اور کام کے وظیفہ خوار کو معاف کیا ہو۔ تازہ واقعہ ہی یاد کر لیں۔ اسامہ بن لادن کی خاطر ‘اس نے ایک ملک پر فوج کشی کی اور دوسرے ملک کو جو اس کا اتحادی تھا‘ اس کا پورا دفاعی نظام روندتے ہوئے‘ اسامہ بن لادن کو مار کے‘ اٹھا لے گئے۔ ایسا آج تک تو ہوا نہیں۔ اب اگر ہو جائے تو میں کہہ نہیں سکتا کہ امریکہ نے پاکستان کو معاف کر دیا ہو گا۔
امریکہ ایک بار پھر‘ پاکستان میںو اپسی کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ایک ایک لقمہ کر کے ہماری امداد شروع کی جا چکی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف اب تک جو کچھ کیا ہے‘ امریکہ اس سے ہرگزمطمئن نہیں۔ یہاں تک کہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امریکہ کو جو شکایت تھی‘ وہ بھی ختم نہیں ہوئی اور سچ کہوں تو افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی کی رپورٹ بھی اچھی نہیں گئی۔ اس پس منظر میں‘ یہ خبر پڑھ کے میں سوچنے لگا ہوں کہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ امریکہ کا حال تو یہ ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے‘ دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟ خبر یہ ہے ''امریکہ اور پاکستان مشترکہ فوجی مشقیںشروع کرنے والے ہیں‘ جن کا اکتوبر 2015ء میں آغاز ہو جائے گا۔ امریکہ اور پاکستان میں 100 سے زیادہ مشترکہ کارروائیوں اور مشقوں کا منصوبہ صرف اکتوبر میں شروع ہونے والے مالیاتی سال کے دوران مکمل کیا جائے گا۔مشترکہ مشقیں مختلف فوجی مہارتوں پر مشتمل ہوں گی۔ ان میں ہوائی‘ زمینی اور سمندری آپریشنز کئے جائیں گے۔ امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے مطابق دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان دیگرEngagementsکے علاوہ سپیشل آپریشنز بھی ہوں گے اور منصوبے کے تحت جوEngagementsہوں گی‘ ان میں سیمینارز اور دوسرے فورمز استعمال کئے جائیں گے‘ جن میں دیگر موضوعات کے علاوہ کائونٹر ٹیررازم‘ کائونٹر انسرجنسی‘ سول ملٹری کوآپریشن‘ خفیہ تبادلہ اطلاعات اور پریس ریلیزیں شامل ہیں۔ آخری سطور پڑھتے ہوئے ہماری میڈیا برادری کا ماتھا بھی ٹھنک گیا ہو گا کہ آگے کیا آ رہا ہے؟ میں نے جس دن میڈیا پر پابندیوں کی خبریں پڑھیں‘ تو فوراً بھانپ لیا کہ ''امریکہ آ رہا ہے۔‘‘ میڈیا پر ہم نے امریکی مہربانیاں بہت دیکھی ہیں۔ پورے پرنٹ میڈیا پر نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر‘ قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی وہیں سے آیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے کم و بیش تمام اخباروں اور مغربی پاکستان سے ''نوائے وقت‘‘ اور ''جنگ‘‘ گروپس نے سخت مزاحمت کی تھی‘ جس پر ایوب حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ یحییٰ خان کا سنسر بھی اس کے امریکی آقائوں نے ہی لگوایا تھا اور ضیاالحق کو تو ایسا پکا کر کے بٹھایا گیا کہ اس نے صحافیوں کو کوڑے بھی لگوا دیئے۔ میں نے اپنی قید میں ایک ہفتہ ایک ایسی کوٹھڑی میں کاٹا‘ جس کا پکا فرش ادھڑا ہوا تھا اور نومبر کے مہینے میں اوڑھنے کے لئے ایک چادر تک نہیں تھی۔ اب جو کچھ امریکہ یہاں کرنے والا ہے‘ اس کے لئے قومی میڈیا کی آزادی ناقابل برداشت ہو گی۔ اندازہ ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنے سیٹلائٹ میں بہتر صلاحیتیں پیدا کرنے کے لئے پوری تیکنیکی امداد دی جائے گی تاکہ تمام نیوز چینلز کی نشریات سرکاری سیٹلائٹ سے ہوں۔ مشرف اور زرداری کے دور میں‘ امریکیوں نے چھوٹے چھوٹے دیہات میں این جی اوز کا جال پھیلا دیا تھا۔ آثار سے لگتا ہے کہ امریکہ پھر آ رہا ہے۔
مکمل تحریر >>

گجرات: وڈیروں نے معمولی تنازع پر 17 سالہ نوجوان زندہ دفن کر دیا



گجرات میں بااثر وڈیروں نے ظلم کی انتہاء کر دی۔ ایم پی تھری واپس مانگنے پر زمیندار کے بیٹوں نے 17 سالہ نوجوان کو پہلے چھریوں اور ڈنڈوں سے لہولہان کیا، پھر زندہ دفن کر دیا۔ ملزم گرفتار نہ ہونے پر مقتول کے ورثاء سڑکوں پر نکل آئے۔

گجرات: (دنیا نیوز) ہنجرا نامی گاؤں کے رہائشی سترہ سالہ ارسلان کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے اپنی ایم پی تھری واپس مانگی لیکن بااثر وڈیرے انسانیت ہی بھول گئے۔ زمیندار قیصر نے پہلے بیٹوں سے مل کر ارسلان کو تشدد کا نشانہ بنایا، چھریاں ماریں اور پھر لہولہان کرکے زندہ دفن کر دیا۔ نوجوان کے لواحقین کو اسے زندہ دفن کرنے کا علم دس گھنٹے بعد ہوا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ گڑھے سے لاش نکالی گئی تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ارسلان کے ورثاء نے احتجاج کرتے ہوئے جمال پور سیداں روڈ پر ٹریفک بلاک کر دی۔ احتجاج میں شریک خواتین نے سینہ کوبی بھی کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے نوجوان کو زندہ دفن کرنے کی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او گجرات سے رپورٹ طلب کرلی ہے اور مجرموں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ دنیا نیوز کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مجرموں کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
مکمل تحریر >>

Sunday, March 22, 2015

نیند سے پہلے…

 
ہم سب سونے سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور سوچتے ہیں، کچھ لوگ آنے والے کل کے بارے میں اور کچھ لوگ گزرے ہوئے کل کے بارے میں اور کچھ لوگ اب تک کی کامیابیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ولیم ورڈز ورتھ نے کہا تھا کہ اگر نیند نہ آئے تو بھیڑوں کے بڑے بڑے ریوڑ ذہن میں لاؤ اور پھر انہیں گنتے جایا کرو اور اسی گنتی میں آپ کو نیند آجائے گی۔ کوئی شاعر پھول کا تصور ذہن میں لانے کے لیے کہتا ہے اور بچپن میں دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ بیٹا سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ لیا کرو تاکہ ڈراؤنے خواب نہ آئیں۔

جن لوگوں کو نیند نہیں آتی وہ رات کو گہری نیند سوئے ہوئے لوگوں کے خراٹے سن کر رشک کرتے ہیں کہ سونے والے کتنے خوش نصیب ہیں اور انہیں اس بات کا ملال ہوتا ہے کہ سونے والوں کے خراٹوں سے ان کی نیند اڑ رہی ہوتی ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں کم از کم آٹھ گھنٹے کی نیند ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن زیادہ پریشان اور بے چین رہنے والے لوگوں کو نیند کم آتی ہے اور اکثر ان کو سونے کیلئے دوا کا سہارا لینا پڑتا ہے، جبکہ جسمانی مشقت کرنے والے اور ٹھنڈے دماغ کے لوگوں کو باآسانی نیند آجاتی ہے اور ان کو سونے کیلئے دوا کا سہارا بھی نہیں لینا پڑتا۔ سوال اس وقت نیند کا نہیں بلکہ نیند سے پہلے کا ہے، جب ہم بستر پر لیٹ کر سونے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔

یاد رکھیے! اس وقت کی سوچ آپ کی آنے والی نیند کی بنیاد بنتی ہے اور آپ کے اگلے آٹھ گھنٹے کیسے گزریں گے اسی وقت ان کی شکل واضح ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے آپ کے سوچنے کے انداز کا اثر آپ کی شخصیت پر بہت گہرا پڑتا ہے۔

یاد رکھیے! سونے سے پہلے آپ کا شعور جاگ رہا ہوتا ہے اور آپ کی ہر حرکت، ہر سوچ اور ہر فیصلہ شعوری طور پر کیا جا رہا ہوتا ہے لیکن جب آپ سو جاتے ہیں تو لاشعور جاگ جاتا ہے، اصل میں جاگا ہوا تو وہ پہلے سے ہی ہوتا ہے لیکن الرٹ ہوجاتا ہے اور پھر نیند کے دوران آپ کی حرکات اور سوچ وغیرہ لاشعور کے زیر اثر ہی ہوتی ہیں۔ سونے سے چند لمحے پہلے اگر آپ کا شعور یعنی آپ خود اپنے لاشعور کے ذمے کوئی کام لگادیں، مثلاً آپ کسی کشمکش میں ہیں اور فیصلہ نہیں ہورہا ہے کہ کیا کریں؟ یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور فیصلہ، تو آپ کا لاشعور رات بھر اس مشن پر کام کرتا رہے گا اور جب آپ بیدار ہوں تو جو خیال سب سے پہلے آپ کے دماغ میں آئے گا وہ لاشعور ہی کی طرف سے بھیجا ہوا پیغام ہوگا اور یقین کیجئے کہ یہ مشورہ کبھی بھی غلط نہیں ہوتا۔

اصل میں ہمارا شعور تو صرف زمان و مکان کی حدود میں موجود چیزوں کو اپنے مشاہدے کی بنا پر جانچ سکتا ہے، لیکن لاشعور حدود و قیود سے آزاد ہوتا ہے، آپ کا لاشعور زمان و مکان سے بالا، کائناتی اور آفاقی قوانین سے آگاہ ایک ایسا علم ہے جس میں خطا کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ آپ جب بھی اپنے بارے میں کوئی رائے لینا چاہیں یا کوئی فیصلہ کرنا چاہیں تو اپنے لاشعور کو سونے سے پہلے ضرور آزمائیے، ہوسکتا ہے کہ آپ کو دوسرے دن کوئی اشارہ نہ ملے، لیکن جلد ہی ٹھیک جواب ضرور ملے گا۔ اور جب آپ کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو تو پھر سونے سے پہلے آپ کو کیا سوچنا چاہیے؟

ہم سب کی زندگیوں میں اچھے لمحے اور خوبصورت یادیں ضرور گزری ہوتی ہیں، جن میں سے کچھ یاد گار لمحے ادھورے بھی رہ جاتے ہیں، ہماری یادوں کی کینوس پر بہت سی خوبصورت تصویریں بھی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ جن میں کئی ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں ہم رنگ بھرنا بھول چکے ہوں یا چاہتے ہوئے بھی رنگ نہیں بھرسکے ہوں، کچھ ان سنی آوازیں بھی ضرور ہوتی ہیں جو شاید کسی نے کہی بھی ہوں لیکن ہم سن نہ سکے ہوں۔ رات کو سونے سے پہلے کبھی ان بے رنگ تصویروں میں رنگ بھرا کریں، کبھی ان سنی آوازوں میں لفظ تلاش کیا کریں، کبھی ان ادھورے لمحوں کو مکمل کرکے ضرور دیکھا کریں اور کبھی کبھی اپنے تخیل میں خود کو تراش لیا کریں۔

اس کے بعد جب آپ کو نیند آئے گی تو اس دوران آپ کے جسم اور روح دونوں کے لیے یہ طبی، جسمانی اور روحانی طور پر بہت مفید ہوگی۔ آپ کے دل کی دھڑکن سے لے کر سانسوں کی رفتار اور خون کا فشار آپ کے جسم کو بہتر اور تندرست بنائے گا۔

اگر کبھی آپ واقعی بہت پریشان ہوں، ظاہر ہے دنیا میں ہرآدمی کبھی نہ کبھی پریشان تو ہوتا ہے اور ایسی حالت میں نیند ہی نہیں آتی اور انسان صرف انہی پریشانیوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ اگر آپ کسی ایسی صورت حال میں ہوں تو جب تک آپ کو بہت زیادہ گہری نیند نہ آئے تب تک آپ باقاعدہ جاگتے رہیں، بستر پر لیٹ کر کروٹیں بدلنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ کسی اپنے سے اپنی اس پریشانی کا ذکر (Discuss) کریں اور اس مسئلے پر باتیں کرتے رہیں۔ یا خود کو اپنی اس پریشانی کا حل نکالنے میں مصروف رکھیں، یہاں تک کہ آپ اس قدر تھک جائیں کہ بستر پر لیٹتے ہی نیند آجائے۔ طبی نقطہ نظر میں ایسی پریشانی کی حالت میں بے خوابی سے بہت بہتر ہے کہ آپ کچھ دنوں کے لیے نیند کی دوا لے لیں، یاد رکھیں جب تک آپ کی نیند پوری نہیں ہوگی آپ کا اگلا دن اچھا نہیں گزرے گا۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, March 11, 2015

برطانوی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد کیوں زیادہ ہے؟

برطانیہ کی جیل

یہ ایک راز ہے۔
کیوں جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے؟
سنہ 2002 میں انگلینڈ اور ویلز قید 5,502 قیدیوں نے کہا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔
تین سال بعد یہ تعداد بڑھ کر 7,246 ہو گئی اور اب دسمبر 2014 میں یہ 12,225 بتائی جا رہی ہے۔
ٹھیک ہے قیدیوں کی مجموعی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد 2002 میں 70,778 تھی جو کہ گزشتہ دسمبر تک بڑھ کر 84,691 ہو گئی تھی۔
لیکن جیلوں میں قیدیوں کی 20 فیصد بڑھنے والی تعداد مسلمان قیدیوں کی تعداد سے کہیں کم ہے جو کہ 122 فیصد بڑھی ہے۔
اس کی ایک ممکنہ وضاحت تو یہ ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کی مجموعی آبادی بھی بڑھی ہے۔ سنہ 2001 کی مردم شماری میں انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا تین فیصد تھی جو کہ تقریباً 1.5 ملین بنتی تھی۔
سنہ 2011 میں یہ تعداد بڑھ کر 4.8 فیصد یعنی 2.7 ملین ہو گئی۔ سو آپ کہیں گے کہ اسی تناسب سے جیلوں میں بھی قیدیوں کی تعداد بڑھی۔
لیکن اگر دیکھا جائے تو جیلوں میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ اب جیلوں میں مسلمان قیدیوں کا تناسب 14.4 فیصد ہے جو کہ 2002 میں 7.7 فیصد تھا۔
دہشت گردی پر میڈیا کی توجہ سے لگے گا کہ جیلوں میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق اسلامی دہشت گردوں کو دی جانے والی سزاؤں سے ہے۔
لیکن اعداد و شمار یہ نہیں بتاتے۔
وزارتِ انصاف کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ اکتوبر 2012 سے لے کر جنوری 2015 تک 178 قیدیوں میں سے 104 مسلمان قیدی دہشت گردی جیسے جرائم کی وجہ سے قید ہیں جن کا محرک انتہا پسندانہ نظریات ہیں۔ یہ تعداد مسلمانوں کی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔
ایک اور عنصر جو بتایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غیر ملکی قیدیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جو کہ گزشتہ برس 10,500 تھی۔

وزارتِ انصاف کے 2013 کے ایک تجزیے کے مطابق مسلمان قیدیوں میں سے 30 فیصد برطانوی شہری نہیں۔ گزشتہ برس 10 غیر ملکی قیدیوں میں سب سے نمایاں دو مسلمان ممالک میں سے تھے: پاکستانی (522) اور صومالی (417) تھے۔
اس سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ برطانیہ کی نسلی گروہ اور آبادی کی ہییت بدل چکی ہے جس کی وجہ امیگریشن میں اضافہ، بیرون ممالک سے سفر، اور غیر ملکی ماؤں کے بچے ہیں۔ اس لیے جیل کی آْبادی بھی بدل چکی ہے جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔
لیکن اس کے کچھ پسِ پردہ پہلو بھی ہیں۔
سنہ 2010 میں اس وقت کی چیف انسپکٹر آف پرزن ڈیم این نے جیل میں مسلمانوں پر ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں انھوں نے جیل میں مسلمانوں کی تعداد کا تعلق عمر اور معاشی اور اقتصادی پروفائل سے جوڑا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’برطانیہ میں زیادہ تر مسلمان قیدیوں کی عمریں غیر مسلموں سے کم ہیں اور زیادہ تر نچلے درجے کے سماجی اور اقتصادی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
گزشتہ برس 58 فیصد مسلمان قیدی 30 سال یا اس سے کم عمر کے تھے۔
گزشتہ برس ایک اہم رپورٹ میں ہورنسے ریچڈ کی لیڈی لولا ینگ نے بھی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس بات کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ انھیں روکا جائے اور ان کی تلاشی لی جائے، اور اس کے بھی زیادہ امکانات ہیں کہ وہ رحم کی اپیل نہ کریں اور ان پر مقدمہ چلے۔
’یہ عدم مساوات ملازمت، صحت اور سماجی برابری نہ ہونے کے ایک پیچدہ مرکب کا حصہ ہے جو ان کی زندگیوں پر اثر کرتا ہے۔‘
لیکن ان کی تحقیق سے ایک اور پریشان کن بات بھی سامنے آتی ہے اور وہ امتیازی سلوک ہے۔ اس کے مطابق پالیسی بنانے والے اور سیاستدانوں کو ابھی منفی سٹیریوٹائپنگ اور ثقافتی فرق کا اثر صحیح طرح سمجھ نہیں آیا۔
لیڈی ینگ نے کہا کہ ’ہم جن قیدیوں کو ملے ان میں سے سبھی نے کہا کہ ان کی نسل، قومیت اور عقیدے کی وجہ سے ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔‘
’سیاہ فام قیدی محسوس کرتے ہیں کہ انھیں منشیات فروش سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد۔‘
یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ جیل میں ایک مرتبہ رہا ہو کر دوبارہ جرم کر کے سزا پانے والے مسلمان قیدیوں کا تناسب دوسرے قیدیوں سے بہت کم ہے

مکمل تحریر >>

17 لاکھ کی گھڑی جو ’رولیکس نہیں ہے‘

 
 
ایپل کے سربراہ ٹم کک نے گذشتہ برس ایپل کی سمارٹ واچ کی جھلکیاں دکھائی تھیں، لیکن اس کے باوجود اس گھڑی کے بارے میں کئی سوال جواب طلب تھے۔
سب سے بڑا یہ سوال تھا کہ آخر یہ کرے گی کیا؟
پیر کو ایک تقریب میں ٹم کک نے اسی بنیادی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی، تاہم کچھ لوگ اس سے مطمئن ہوئے، کچھ نہیں ہوئے۔ جب کہ اسی دوران انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹوں پر لوگوں نے رنگارنگ ردِعمل کا اظہار کیا۔
ذیل میں اسی کا انتخاب پیش کیا جا رہا ہے:
اداکارہ اینا کینڈرک:
ہمیں ایپل کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے دس ہزار ڈالر کی گھڑی متعارف کروائی ہے۔ اس سے ہمیں ذلیل انسانوں کو پہچاننے میں مدد ملے گی۔
معیشت دان جوزف بروسوئلس:
ایپل واچ سٹیو جاب کے لیزا کمپیوٹر کی مانند ہے۔ اس کا خیال برا ہے، پیش کش بری ہے، اور یہ اسی راستے پر جائے گی جس پر گوگل گلاس گیا ہے۔
صارف جے ڈی فلین (ریڈ اٹ پر):
دس ہزار ڈالر کی گھڑی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن ایپل واچ مختلف ہے۔ یہ رولیکس نہیں ہے۔ ایک سال بعد یہ متروک ہو جائے گی، اور دس سال بعد یہ آن تک نہیں ہو گی کیوں کہ اس کی بیٹری مر چکی ہو گی۔
ایپل واچ کے درجنوں ڈیزائن دستیاب ہیں
صارف لیورلاف لو ریوینج (ریڈ اٹ پر):
مجھے امید تھی کہ ایپل کوئی اچھی چیز پیش کرے گی، کوئی ایسی چیز کو ٹیکنالوجی کو آگے بڑھائے۔ لیکن نہیں۔ اس کی بجائے انھوں نے اسے سٹیٹس سمبل بنانے کی کوشش کی ہے۔
صارف ڈین کولاسینٹی (ٹوئٹر پر):
جو لوگ 18 قیراط سونے کی 17 ہزار ڈالر والی گھڑی کا رونا رو رہے ہیں، ان کے لیے پیغام: یہ گھڑی تمھارے لیے نہیں ہے۔ اس لیے یہ برداشت کرو۔
صارف آئی پیڈرو (میک رومرز):
18 گھنٹے کی بیٹری مناسب ہے۔ آپ دن میں کتنے گھنٹے جاگتے ہیں؟
مصنف میتھیو انگریم:
17 ہزار ڈالر والی گھڑی زیادہ توجہ کا مرکز بن رہی ہے لیکن میرے خیال سے 349 ڈالر والی گھڑی خاصی مناسب ہے۔
بزنس انسائیڈر:
میں نے جب یہ ڈیمو دیکھا تو مجھے لگا کہ یہ بالکل آئی فون کی طرح ہے۔ اس میں کوئی واحد ایسی چیز نہیں تھی جو مجھے قائل کر سکے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی مختلف چیزیں جمع ہوتی گئیں۔
مکمل تحریر >>

تین افراد کو قتل کرنے والے گارڈ کو پھانسی دے دی گئی

 
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ڈسٹرکٹ جیل میں تین افراد کے قتل کے مجرم محمد صدیق کو پھانسی دے دی گئی۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ڈسٹرکٹ جیل انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ محمد صدیق کو بدھ کی صبح ساڑھے پانچ بجے پھانسی دی گئی اور ان کی لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے۔

محمد صدیق ایک ریٹائرڈ فوجی تھے اور مقامی سینما میں سکیورٹی گارڈ کی ڈیوٹی دیتے تھے۔ انھوں نے 2004 میں سینما کی حدود میں تین افراد کو قتل کیا تھا۔

تھانہ کمالیہ میں نائب محرر محمد الیاس کے مطابق محمد صدیق نے مقامی سینما میں سٹیج ڈرامے کے دوران گانے پر رقص کرتے ہوئے افراد پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ فائرنگ کی زد میں آنے والے متعدد افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بعد ازاں محمد صدیق نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ انھوں نے لڑکوں کو اس لیے قتل کیا کیونکہ وہ وہاں موجود ایک لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔

محمد صدیق ساڑھے دس سال سے قید میں تھے اور ان پر اقدام قتل کی دفعہ 324/ 302 اور دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے کے تحت مقدمہ چلایا گیاتھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں مسترد ہوئی جس کے بعد پاکستان کے صدر نے ان کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نےدو روز قبل ہی ملک بھر میں سزائے موت پر عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ اس سزا پر عمل کیا جائے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے چاروں صوبائی حکومتوں کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام مقدمات جن میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں ان کی سزاؤں پر قانون کے مطابق عمل کیا جائے۔
مکمل تحریر >>

Sunday, March 1, 2015

InPage 2014 Khattat Professional

 urdu InPage 2014 Khattat Professional
ان پیج اردو، فارسی، پشتو، سندھی، عربی اور دیگر عربی رسم الخط کی حامل زبانیں لکھنے اور صفحات کی تزئین و آرائش کا ایک مصنح لطیف (سافٹ وئیر) ہے جس کا پہلا نسخہ 1994ء میں جاری ہوا۔ اسے بھارت کے کانسپٹ سافٹ وئیر نے تخلیق کیا ہے اور یہ صرف مائکروسافٹ ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔ ان پیج خاص طور پر اردو زبان کے نستعلیق رسم الخط لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے ڈاؤن لوڈ  پر کلک کریں
http://www.mediafire.com/download/k99lqmcrkzylcv1/InPage2014+Khattat+Professional%282%29.rar
مکمل تحریر >>

حیرت انگیز سائیکل جو کار کی رفتار سے چلے…!

سائیکل کے پیڈل اگر درمیانی رفتار سے بھی گھما ئیں تو 48کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہےفوٹو : فائل

واشنگٹن: سائیکل ایسی شاندار سواری ہے کہ کوئی دوسری سواری قیمت اور استعمال کی آسانی میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

اس کا ایک ہی مسئلہ اس کی کم رفتار ہے مگر اب امریکی موجد نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے اور رفتار میں بھی اس سواری کو کار کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ منی آپلس سے تعلق رکھنے والے رچ کرو نفیلڈ نی ایک ایسی سائیکل تیار کر لی ہے کہ جس کی رفتار 160کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس حیرت انگیز سائیکل کا نام Raht Racerہے اور اس میں پیڈل ہائبرڈ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ اس کے پیڈل ایک چھوٹے جنریٹر سے جڑے ہیں اور یہ جنریٹر 20KWhکی ایک موٹر کو چلاتا ہے۔ موٹر کو کرنٹ ایک لیتھیم آئن بیٹری کے ڈریعے فراہم ہوتا ہے جسے جنریٹر چارج کرتا ہے۔
سائیکل سوار کو محض پیڈل گھمانے ہوں گے اور یہ آسامان سے باتیں کرے گی۔ اس انقلابی سائیکل کے موجد کا کہنا ہے کہ اگر درمیانی رفتار سے بھی پیڈل گھمائے جائیں تو بھی رفتار 48کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔ سائیکل کی شکل خلائی گاڑی جیسی ہے اور اس کے تین پہیے ہیں۔ سوار کو مکمل طور پر کاربن فائبر کے بنے خول کے اندر ہو گا۔ اس میں دو سیٹیں ہیں اور کْل وزن تقریباً 260کلو گرام ہے۔ اس کی قیمت تقریباً 35ہزار ڈالر (تقریباً 35لاکھ پاکستانی روپے ) ہے۔
مکمل تحریر >>

کارگل جنگ میں پہلا راکٹ میں نے اپنے ہاتھوں سے فائر کیا:حافظ سعید

 
؎؎لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جماعت الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید نے انکشاف کیا ہے کہ کارگل کی جنگ میں بھارت کے زیر قبضہ چوٹیوں پر سب سے پہلا راکٹ انہوں نے چلایا تھا اور وہ پہلی بار یہ بات منظر عام پر لا رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایک مقامی ہوٹل میں سینئر کالم نگار اسد اللہ غالب کے کالموں کے مجموعے ”اے وطن کے سجیلے جوانوں“ کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل(ر) خالد مقبول، میجر جنرل (ر) غلام مصطفی اور رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق نے بھی شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حافظ سعید کا کہنا تھا کہ وہ بھارت کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور کشمیر کو آزاد کرائے بغیر پاکستانی قوم چین سے نہیں بیٹھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف دونوں شریف ہے اور ایک ہو کر قومی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ ان کا ایک ہونا کامیابی کی ضمانت ہے۔ انہوں نے دہشت گردوں اور دہشت گردی کی شدید مذمت بھی کی۔
مکمل تحریر >>

لولی لنگڑی ہی سہی لیکن پیشرفت تو ہوئی

 
پاکستان اپنی تمام تر ناکامیوں، خامیوں، کمزوریوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح زمبابوے کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا ہے، ایک ایسے مرحلے سے کہ جہاں خود اس کے پرستاروں کو یقین نہیں آ رہا۔

مقابلے کے آغاز ہی میں صرف چار رنز پر دو وکٹوں سےمحروم ہوجانا ہی ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا کہ کھلاڑی سخت دباؤ میں کھیل رہے ہیں، بے جا توقعات کا دباؤ کہ جو ٹیم 13 میں سے صرف دو مقابلے جیتی ہو، اس سے ورلڈ کپ جیتنے کی توقع کرنا ایسا ہی ہے جیسے سیب کے درخت سے کیلا اگنے کی امیدیں۔ بہرحال، اس نازک مرحلے پر کچھ کام مصباح الحق کی 73 رنز کی دفاعی اننگز نے دکھایا اور کچھ  وہاب ریاض کی 54 رنز کی تیز رفتار باری نے، پاکستان گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح 235 رنز تک پہنچ گیا۔
اگر عالمی کپ 2015ء میں زمبابوے کی اب تک کی کارکردگی دیکھیں تو 236 رنز کا ہدف کچھ بھی نہیں تھا۔ جنوبی افریقہ کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے خلاف 277 رنز بنانے کے بعد زمبابوے نے ویسٹ انڈیز کے مقابلے میں 289 رنز بنائے تھے۔ لیکن پاکستان کے گیند بازوں نے آج اپنی صلاحیت و اہلیت سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔
جب زمبابوے اوپنرز کے آؤٹ ہونے کے بعد تیسری اور چوتھی وکٹ پر 100 سے زیادہ رنز بنا چکا تھا تو امید کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگا تھا۔ جب وہاب ریاض نے برینڈن ٹیلر کو آؤٹ کیا تو کچھ کچھ اور کچھ دیر بعد راحت علی کے ہاتھوں شان ولیمز کی وکٹ گرنے سے امیدیں مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ پاکستان نے زمبابوے کو 215 رنز پر ڈھیر کردیا اور عالمی کپ میں پہلی کامیابی حاصل کرلی۔
گزشتہ مقابلوں میں بھارت اور پھر ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں مایوس کن شکست کے بعد کیا یہ جیت پاکستان کے عالمی کپ میں سفر کو دوبارہ پٹری پر لے آئے گی؟ ہاں، اگر پاکستان متحدہ عرب امارا ت کے خلاف اپنا اگلا مقابلہ اچھی طرح جیتے تو جنوبی افریقہ کے خلاف اہم مقابلے سے پہلے ٹوٹے پھوٹے حوصلے مجتمع ہوسکتے ہیں۔
دراصل پاکستان کی عالمی کپ مہم شاید اتنی مشکل نہ ہوتی اگر پاکستان ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست نہ کھاتا۔ یہ مقابلہ پاکستان کو ہر گز نہیں ہارنا چاہیے تھا۔ وہ ویسٹ انڈیز جو آئرلینڈ کے خلاف اپنا پہلا مقابلہ ہار گیا تھا، پاکستان نے اس سے 310 رنز کھائے اور پھر خود 160 رنز پر ڈھیر ہوگیا یعنی اپنی موت کا سامان آپ کیا۔ اب عالمی کپ کے کوارٹر فائنل تک رسائی کے لیے پاکستان کے پاس سیدھا سا نسخہ یہ ہے کہ وہ آنے والے مقابلوں میں متحدہ عرب امارات اور آئرلینڈ کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ کو بھی شکست دے۔ تبھی اس کے پوائنٹس کی تعداد 8 ہوجائے گی اور وہ کوارٹر فائنل تک پہنچ جائے گا، بصورت دیگر ایک مرتبہ پھر دیگر ٹیموں کی فتوحات اور شکستوں کی دعائیں ہوں گی، نیٹ رن ریٹ کے حساب کتاب کے لیے کیلکولیٹرز نکلیں گے اور تب کہیں جا کر کوئی سبیل پیدا ہوگی۔
ویسے جنوبی افریقہ کی حالیہ کارکردگی دیکھیں تو اس کا پاکستان کے ہاتھوں شکست کھانا تقریباً ناممکنات میں سے دکھائی دیتا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف گزشتہ مقابلے میں جس طرح جنوبی افریقہ نے 408 رنز بنائے ہیں، ان کے کپتان ڈی ولیئرز نے دھواں دار بیٹنگ کی ہے اور 257 رنز کے ریکارڈ مارجن سے کامیابی حاصل کی ہے، اس سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ پاکستان کو جیت کا موقع دے گا لیکن پھر بھی پاکستان کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ 7 مارچ کو آکلینڈ میں جیت پاکستان کے نام ہو۔ ہاں، اگر ایسا نہیں ہوسکا تو اپنی جائے نمازیں تیار رکھیں۔
مکمل تحریر >>

بندہ ٹھوکریں کھا کھا کر ہی ٹھاکُر بنتا ہے

 
دو مبارکبادیں، پہلے تو قوم کو فتح مبارک ہو کہ بلآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور پاکستان جیت گیا جبکہ دوسری مبارکباد اِس بات پر کہ اِس میچ میں پاکستان کی پوری ٹیم آوٹ نہیں ہوئی۔
اگرچہ گزشتہ دو میچوں کی شکست کی وجہ سے اِس جیت کا مزہ کچھ کِرکِرا سا ہورہا ہے لیکن یہی بہت ہے کہ کم ازکم ورلڈ کپ میں ہم وائٹ واش ہونے سے تو بچ گئے۔ آج کے دن شاہد آفریدی کی سالگرہ بھی تھی جس پر شاہد بھائی نے صفر پر آوٹ پوری قوم کو انڈے کا تحفہ دینے کا شاندر مظاہرہ کیا۔ یہ بات الگ ہے کہ ہمارے اوپنرز نے اِس میچ میں بھی پاکستان کی کمر توڑنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن کپتان مصباح الحق اور وہاب رہاض نے بالترتیب سب سے زیادہ 73 اور 54 رنز بناکر ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔
ٹیم کی گزشتہ کارکردگی کی وجہ سے قوم کو اس میچ میں فتح کی کوئی بہت اُمید نہیں تھی لیکن بہرحال وہ کہنے ہیں نا کہ ’’ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے‘‘ کے مصداق مایوسیوں اور ناامیدوں کے اندھیروں میں چراغ جلانا ہم پاکستانیوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ جب دنیا کو لگتا ہے کہ ہم گرنے والے ہیں تب ہم ایسے سنبھلتے ہیں کہ ہواوں کے رُخ موڑ دیا کرتے ہیں۔ کیا ہوا ہم پہلے دو میچ ہار گئے کیونکہ بندہ ٹھوکریں کھا کھا کر ہی ٹھاکُر بنتا ہے۔
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آج کا میچ جیتنے کے بعد پاکستانی قوم ماضی کے سارے رونے چھوڑ کر پھر سے کھلاڑیوں کی پوجا شروع کردے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا اور خاص طور پر مختلف چینلز پر بیٹھے کرکٹ کے نجومی پھر سے اس ٹیم کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملائیں گے کہ پوری قوم ایک ہیجان میں مبتلا ہوکر اگلے میچز دیکھے گی اور پھر خدانخواستہ میچ ہار گئے تو دوبارہ اپنی اصلیت پر آجائینگے؟
آخر ہم کب حقائق سے نظریں ملانا سیکھیں گے؟ آج کی جیت کے باوجود میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسوقت پاکستانی کرکٹ میں انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں۔ جن میں سب سے پہلے تو ہمیں بزرگ کھلاڑیوں سے جان چھڑانی ہوگی۔ درحقیقت کھیل تو نوجوانوں کا کام ہوتا ہے لیکن ہم نے کرکٹ کو نہ صرف بزرگوں کا کھیل بنادیا ہے بلکہ سیاست کی بھی نذر کردیا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے ہم ایک نئی ٹیم تلاش کریں جو محض خود کے لیے پیسہ کمانے کے بجائے اور ملک کے لیے کچھ کرگزرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو اشتہارات میں کام کرنے سے زیادہ اپنے کھیل پر توجہ دیں۔ ہمارے شاہد آفریدی آپکو بیسیوں ٹی وی کمرشلز میں تو جگمگاتے نظر آئیں گے مگر انہوں نے ورلڈ کپ کے لیے کتنی تیاری کی اور پریکٹس میں کتنا وقت گزارا؟ ورلڈ کپ میں شامل ٹیموں میں موجود نئے کھلاڑیوں اور اُنکے کھیلنے کے اسٹائل پر کتنی تحقیق کی؟ اِس بارے میں کوئی خبر نہیں ملے گی۔ ہمارے ہاں چھوٹے معصوم بچوں سے لے کر بوڑھے تک کتنے ارمانوں سے سب کام چھوڑ کر میچ دیکھتے ہیں لیکن جب شرمناک نتائج نکلتے ہیں تو بہت سے نازک دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ اسوقت پاکستان کو بھی ’’ڈی ویلئر‘‘ جیسے کھلاڑیوں اور جذبے کی ضرورت ہے۔ اُسکے پروفیشنلزم کا یہ حال ہے کہ مسلسل آٹھ ڈبل رنز لے کر اُس کی حالت غیر ہوتی محسوس بھی ہوئی تو اُس نے صرف پانی منگوایا اور پھر اپنے کام میں لگ گیا جبکہ ہمارے ہاں ایڑھی پر معمولی چوٹ بھی لگ جائے تو میچ چھوڑ دیتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈی ویلئر نے 66 گیندوں پر 162 رنز کی طوفانی اننگ کھیلی ہے جبکہ ہمارا کپتان 91 بالز پر 50 اسکور بناتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ٹیم کی تیاری پر قوم کا کڑوڑوں روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے تو یہ سب اس لیے نہیں کیا جاتا کہ کھلاڑی پوری قوم کی ناک کٹوا کر واپس آجائیں۔ ٹھیک ہے آپ ہار بھی گئے ہیں تو کم ازکم لگے تو سہی کہ محنت کرکے ہارے ہیں ۔
اب ہونا تو یہ چائیے کہ آج کی فتح کے بعد ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے لیکن میں اس لیے نہیں کررہا کیونکہ میں حقیقت پسند ہوں میں نہیں چاہتا کہ آج ٹیم کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردوں اور کل پھر اسے گالیاں دے رہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ ٹیم پاکستان ایک دو میچ جیت کر کواٹر فائنل میں پہنچ جائے اور پھر وہاں سے جب ٹیم ہار کر واپس آئے تو پاکستان کی کرکٹ کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی کالی بھیڑوں کو ایک بار پھر اپنی نوکریاں بچانے کا موقع مل جائے۔
ایک آدھ میچ معجزے سے جیت جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ معجزے بھی روز نہیں ہوتے۔ لہذا کھیل ہو یا جنگ جیت ہمیشہ اسکی کی ہوتی ہے جو تیاری کرتا ہے، اپنا ہوم ورک مکمل کرتا ہے، دشمن کی صلاحیتوں اور طریقہ کار کو سمجھتا ہے اور پھر پوری لگن اور ہمت سے لڑائی لڑتا ہے۔ ہم ٹیم پاکستان سے یہی کہیں گے ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور آپ سے بھی اپیل ہے کہ خدا کے لیے قوم کو مایوس نہ کرنا، جیت کے آو گے تو تمھیں سر پر بٹھائیں گے اور ہار گے بھی آئے تو ایسے ہارنا کہ واپس آکر قوم سے نظریں ملا سکو۔ اللہ پاک تمھارا حامی و ناصر ہو۔
مکمل تحریر >>

Friday, January 30, 2015

پاک چین دوستی کی یادگار کے طور پر 20 روپے کا سکہ جاری


اسلام آباد: حکومت پاکستان نے پاک چین دوستی کی یادگار کے طور پر 20 روپے کا سکہ جاری کر دیا۔

سکے کے فرنٹ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھا گیا ہے جبکہ درمیان میں چاند تارا بنایا گیا ہے جبکہ پشت پر پاکستان اور چین کے جھنڈے بنائے گئے ہیں، یہ سکہ آج سے ملک بھر میں استعمال ہوسکے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی لازوال تصور کی جاتی ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ چین کے موقع پر چینی حکام نے پاکستان کی تشویش کو اپنی تشویش قرار دیا تھا جب کہ مارچ میں چین کے صدر پاکستان کا دورہ بھی کریں گے۔
مکمل تحریر >>

Monday, January 26, 2015

موسمیاتی تبدیلیاں اور ایٹمی ہتھیار دنیا کو قیامت کے قریب لا رہے ہیں


واشنگٹن: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور ایٹمی ہتھیا دنیا کو قیامت کے قریب لارہے ہیں۔

بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس نامی گروپ نے قیامت کی گھڑی کو 2 منٹ آگے بڑھادیا ہے جس کے بعد یہ آدھی رات سے صرف 3 منٹ دور رہ گئی ہے، قیامت کی گھڑی 1947 میں بنائی گئی تھی، اسے 18 مرتبہ تبدیلی کیا جاچکا ہے۔ 1953 میں یہ گھڑی آدھی رات سے 2منٹ دوری پر تھی جبکہ 1991 میں یہ 17 منٹ دور کردی گئی تھی، یہ گھڑی 2012 سے آدھی رات سے 5 منٹ کے فاصلے پر تھی تاہم اب اسے2 منٹ آگے کردیا گیا ہے اور اب یہ 3 منٹ کی دوری پر رہ گئی ہے، آخری مرتبہ یہ 1983 میں اس پوزیشن پر آئی تھی جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی۔

گروپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کینٹ بینیڈکٹ کا کہنا ہے موسمیاتی تبدیلی اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ اور بڑی تعداد میں موجود ان کے اثاثوں کی وجہ سے انسانی تہذیب کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج محدود بنایا جاسکے تاکہ درجہ حرارت تیزی سے نہ بڑھے، گروپ کے ایک اور رکن رچرڈ سومرویل نے بتایا کہ 2014 اب تک کے ریکارڈ کے مطابق گرم ترین سال تھا۔

سائنسدانوں نے نیوکلیئر ہتھیاروں پر خرچ کی جانے والی رقم میں ڈرامائی کمی کا بھی مطالبہ کیا۔بینیڈکٹ نے کہا کہ دنیا میں اس وقت 16300 نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں جو ان کے مطابق بہت زیادہ ہیں۔ روس اور امریکا کے پاس سرد جنگ کے مقابلے میں اب کافی کم نیوکلیئر ہتھیار ہیں تاہم انہیں ختم کرنے کا عمل تقریباً رک چکا ہے۔
مکمل تحریر >>

Ads

Google Translator

Blogger Tips And Tricks|Latest Tips For BloggersFree BacklinksBlogger Tips And Tricks
English French German Spain Italian Dutch Russian Portuguese Japanese Korean Arabic Chinese Simplified
Powered By google

BidVertiser